****قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا****
ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائی اپنے صدیوں پرانے اختلاف بھلا
کر ایک ہو گئے اور ان کی بڑی تعداد شہر کے سب سے بڑے اور مقدس کلیسا ہاجیہ صوفیہ
میں اکٹھی ہ--و گئی--۔
دفاعی فوج نے
جانفشانی سے عثمانیوں کی یلغار روکنے کی کوشش کی۔ لیکن اطالوی طبیب نکولو باربیرو
جو اس دن شہر میں موجود تھے، لکھتے ہیں کہ سفید پگڑیاں باندھے ہوئے حملہ آور
جانثاری دستے ’بےجگر شیروں کی طرح حملہ کرتے تھے اور ان کے نعرے اور -----لوں کی
آوازیں ایسی تھیں جیسے ان کا تعلق اس دنیا سے نہ ہو**۔'
روشنی پھیلنے
تک ترک سپاہی فصیل کے اوپر پہنچ گئے۔ اس دوران اکثر دفاعی فوجی مارے جا چکے تھے
اور --ن کا سپہ سالار جیووانی جسٹینیانی شدید 9
خمی ہو کر میدانِ جنگ سے باہر ہو
چکا تھا۔
جب مشرق سے
سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ترک سپاہی کرکوپورتا دروازے کے
اوپر نصب بازنطینی پرچم اتار کر اس کی جگہ عثمانی جھنڈا لہرا رہا ہے۔
سلطان محمد
سفید گھوڑے پر اپنے وزرا اور عمائد کے ہمراہ ہاجیہ صوفیہ پہنچے۔ صدر دروازے کے
قریب پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترے اور گلی سے ایک مٹھی خاک لے کر اپنی پگڑی پر ڈال
دی۔ ان کے ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
مسلمان سات سو
سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر قسطنطنیہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
قسطنطنیہ کی
فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز
نہیں تھا۔ اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور دوسرے کی
ابتدا ہوئی تھی۔
ایک طرف 27
قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480 برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار
رہنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانی سلطنت نے اپنا نقطۂ عروج
چھو لیا اور وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے حصوں
پر بڑی شان سے حکومت کرتی رہی۔
1453 ہی وہ
سال ہے جسے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا
ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے
کیوں کہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری
کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔
شہر پر ترکوں
کے قبضے کے بعد یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں یونانی بولنے والے شہری بھاگ کر یورپ
اور خاص طور پر اٹلی کے مختلف شہروں میں جا بسے۔ اس وقت یورپ 'تاریک دور' سے گزر
رہا تھا اور قدیم یونانی تہذیب سے کٹا ہوا تھا۔ لیکن اس تمام عرصے میں قسطنطنیہ
میں یونانی زبان اور ثقافت بڑی حد تک برقرار رہی تھی۔ یہاں پہنچنے والے مہاجروں کے
پاس ہیرے جواہرات سے بیش قیمت خزانہ تھا۔ ارسطو، افلاطون، بطلیموس، جالینوس اور
دوسرے حکما و علما کے اصل یونانی زبان کے نسخے۔
ان سب نے یورپ
میں قدیم یونانی علوم کے احیا میں زبردست کردار ادا کیا اور مورخین کے مطابق انھی
کی وجہ سے یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا جس نے آنے والی صدیوں میں یورپ کو
باقی دنیا سے سبقت لینے میں مدد دی جو آج بھی برقرار ہے۔
Comments
Post a Comment